عوام چھ ججوں کے پیچھے کیوں کھڑی ہو؟، حامد ولید

63 / 100

  عوام چھ ججوں کے پیچھے کیوں کھڑی ہو؟، حامد ولید

 

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج جرات و بہادری کا استعارہ بن کر ابھرے ہیں کہ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر نظام انصاف میں ہونے والی خفیہ دخل اندازی کا بھانڈا پھوڑا ہے۔ اس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ کا ایک اجلاس بھی منعقد ہو چکا اور مزید کا امکان ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس طرح چیف جسٹس نظام عدل میں ہونے والی ہر خفیہ اور ظاہری دخل اندازی کو قانون کی مدد سے پلٹاتے چلے جاتے ہیں اسی طرح یہ معزز جج صاحبان بھی بجائے شکائت درج کروانے کے خفیہ دخل اندازی کرنے والوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے یا پھر سابق جسٹس صدیقی کی طرح بار کے پلیٹ فارم سے اپنی طاقت حاصل کرتے۔

تاہم ان معزز جج صاحبان نے خفیہ مداخلت کے خلاف خفیہ شکائت درج کرواکے اپنی پوزیشن کو مزید کمزور کرلیا ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب چیف جسٹس آف پاکستان کسی بھی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لا رہے ہوں، ان کی ماتحت عدالتوں میں خفیہ والے یوں دندناتے پھر رہے ہوں تاآنکہ جج ارشد ملک کی طرح وہ بھی ایسی محفلوں میں اپنی خفیہ ویڈیوز ریکارڈ کرواچکے ہوں جہاں انہیں بطور جج کے نہیں ہونا چاہئے تھا۔ الٹا شکائت بھیج کر انہوں نے پہلے تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو نامزد کیا اور اب چیف جسٹس آف پاکستان کی پوزیشن کو متنازع بنادیا ہے کہ پوری قوم کی نظریں اب ان پر لگی ہیں جس طرح اس سے قبل کمشنر راولپنڈی کے انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر ہوا تھا جس میں موصوف کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس دونوں ہی اس میں ملوث ہیں۔

ہمارے ہاں ججوں کی اعلیٰ عدالتوں میں تعیناتی کا کوئی واضح طریقہ کار موجو د نہیں ہے۔ اول تو سرکاری وکلاء میں دیکھ بھال کران حضرات کو ججی کے لئے چن لیا جاتا ہے جو بطور سرکاری وکیل کے ریاست کے مفادات کا بہترین تحفظ کر رہے ہوتے ہیں اور ہر سرکاری ادارے کے خلاف ہونے والی عوامی شکائت کو اپنی وکالت کی جادوگری سے ہوا میں اڑاتے پائے جاتے ہیں۔ یہ لاء افسر اس ایک نقطے پر اپنی نوکری چلاتے ہیں کہ ساری دنیا غلط ہوسکتی ہے لیکن ریاست کبھی بھی غلط نہیں ہو سکتی، ایسے لاء افسروں کو سرکار پروموٹ کرکے اعلیٰ عدالتوں کے جج تعینات کرلیتی ہے جو بعد میں بھاری بھاری تنخواہوں اور مراعات کے عوض ساری عمر سرکار کی راکھی کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور ریٹائرمنٹ پر بھی بھاری مراعات کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ ایک پائے کے وکیل نے ایک مرتبہ بتا یا کہ انہوں نے ایک سرکاری افسر کے خلاف رٹ دائر کی کہ موصوف ٹریننگ کی غرض سے کاغذوں میں چھٹی پر ہیں، اس کے باوجود  شام کو واپس آکر دفتر لگالیتے ہیں اور سائلین کی فائیلوں کو پراسس ہونے سے روک لیتے ہیں۔ وکیل صاحب کا خیال تھا کہ سرکاری افسر کے خلاف ان کا کیس انتہائی مضبوط ہے اور عدالت پہلی پیشی میں ہی ریلیف دے گی لیکن اس کے برعکس سرکار نے تاریخ پر تاریخ دینی شروع کردی کہ جب تک سرکار کا موقف سامنے نہیں آتا، وہ کوئی حکم صادر نہیں کریں گے۔ کئی ایک پیشیاں اسی طرح گزر گئیں تو ایک پیشی پر ان وکیل صاحب سے رہا نہ گیا اور انہوں نے جج صاحب سے بصد عجز و نیاز عرض کہ جناب والا ہم معز ز عدالت کو اور عدالت سرکار کو دیکھ رہی ہے جس پر ان کی فائیل اٹھا کر واپس کرنے کی دھمکی دی گئی کہ ایسا ہے تو مقدمہ نہیں سنا جائے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لاء افسر جج بن جانے کے باوجود اس طرح کارہائے منصبی سرانجام دیتے ہیں کہ انہیں کسی مداخلت کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور وہ خودکار مشین کی طرح سرکار کے مفادات کا تحفط کرتے چلے جاتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کی درخواست میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں سیتا وائٹ کے مقدمے کو سنتے ہوئے دباؤ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بانی پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات ٹرائل سے گزرنے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے روبرو پیش ہو چکے ہیں اور ساتھ ساتھ ضمانت کی درخواستیں بھی زیر سماعت ہیں، سیتا وائٹ کے مقدمے میں دباؤ کا تذکرہ چہ معنی دارد؟ کیا بانی پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر کسی مقدمے میں ان جج صاحبان کو دباؤ کا سامنا نہیں رہا ہوگا؟

کیا ہی اچھا ہوتا کہ دباؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی درخواست میں وہ جج ارشد ملک کا تذکرہ بھی کرتے جو بتاتے پائے گئے تھے کہ خفیہ والے اس طرح ججوں کو سیدھا کرلیتے ہیں جس طرح کسی ساز کو بجانے سے پہلے اس کو کس لیا جاتا ہے اور پھراپنی مرضی کی دھن بجائی جاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس موجودہ درخواست چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ عدلیہ پر اگر دباؤ ہے تو بس بانی پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات میں ہیں،  باقی سب ٹھیک ہے!

اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ایک اور کھیپ ان نامور وکلاء کے بیٹوں، بھانجوں اور بھتیجوں کی ہوتی ہے جنھیں اس لئے جج بنالیا جاتا ہے کہ ان کی وکالت میں دال نہیں گلتی، یہ حضرات بھی سرکار کے مفادات کا تحفظ اپنے آباء کی میراث سمجھ کر کرتے ہیں اور بے چارے عوام ان عدالتوں میں انصاف کے لئے دہائیاں دیتے جوتیاں چٹخاتے گزار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے نظام عدل سے تنگ آئے ہوئے عوام ان چھ ججوں کے پیچھے کیونکر کھڑی کریں گے جنھیں عوام سے زیادہ حکام کی خوشنودی حاصل کرنے کا شوق ہو؟

 

 

 

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept