ووٹ کیسے مسترد ہوتا ہے ؟،،،،،،ریاض بٹ

58 / 100

ووٹ کیسے مسترد ہوتا ہے ؟،،،،،،ریاض بٹ

قارئین کرام میں نے اپنے گزشتہ دو کالمز میں حالیہ انتخابات کے حوالے سے اپنی گزارشات  پیش کی تھی ان میں شفاف انتخابات اور بعد میں انکی شفافیت اور اقتدار کی منتقلی پر بات کی تھی بنیادی طور پہلا اور مشکل مرحلہ تو شفاف انتخابات کا تھا جو 8 فروری کو مکمل ہوا تھا ، ملک میں افراتفری اور  مشکلات کے باوجود انتخابات والے دن کوئی ایسا واقع رونما نہیں ہوا جس پر شور  کیا جائے البتہ انتخابات کے فوری بعد نتائج کا اعلان ہو نا چائیے  تھا ، انتخابات کے نتیجے کوجان بوجھ کر روکنا ایک طرح سے دھاندلی ہی  کہلاتی ہے  بہرحال اس کے لئے عدالتیں موجود ہیں متاثر امیدواران عدالت میں پٹیشن دائر کوسکتے ہیں اگر آپ عدالت کے فیصلے سے ناخوش ہیں اور سمجھ رئے ہیں کی آپ کے ساتھ انصاف نہیں ہو تو آپ پھر آپ اپنا کیس  بڑی عدالت میں لے جائیں انصاف ملے گا ظاہر ہے  عدالت میں ثابت کرنا پڑتاہے کہ آپ کےساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے اس پر عدالت آپ کو مطمئن کریگی اور انصاف کریگی ،  قارہین کرام حالیہ انتخابات میں لاکھوں ووٹ مسترد ہوئے ہیں یہ پاکستان کی جمہور کی تاریخ میں سب سے انوکھا واقع ہے جو پاکستان  کے ان انتخابات میں  ظہور پذیر ہوا ہے ، میں نے ایک سیاسی کارکن کی حثیت سے درجنوں انتخابات میں حصہ لیا میں نے ذاتی طور پر نو لوکل کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا تھا  جبکہ پارلیمنٹ کے انتخابات میں ممبران کی حمایت اور بھر گنتی کے وقت گنتی کرنے والوں کے سامنے بیٹھ کر ووٹو کو دیکھا ، برطانیہ میں گنتی کے وقت   گنتی کرنے والوں کے سامنے بیٹھنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں برطانیہ میں جن لوگوں سے گنتی کرائی جاتی وہ سارے لوگ غیر جانبدار ہوتے ان سے غلطی کی توقع نہیں کی جاتی البتہ اگر جلدی میں کبھی کوئی ووٹ غلط جگہ  رکھ دیا جائے تو آپ تصیع کریں تو وہ لوگ آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی غلطی درست کردینگے  اس سے اس بات کا اندازہ لگائیں کہ یہ لوگ کسی طور پر ایسی غلطی نہیں کرتے جس سے انکی غیرجانبداری پرسوالیہ نشان اٹھے ،اب ہوتا یہ ہے کہ اگر کوئی ووٹر ایک امیدوار سے زائد ناموں کے سامنے نشان لگائے تو ووٹ مسترد ہوتا ہے  اگر ووٹر ایک امیدوار کے سامنے نشان لگاتا ہے اور اسے کاٹ کر یا مٹا کر دوسرے امیدوار کے سامنے نشان لگاتا ہے تو گنتی آفیسر ریٹرنگ آفیسر سے مشورہ کرتا ہے کہ وہ یہ ووٹ کس کے حق میں ڈالے تو یہ ووٹ دوسرے امیدوار کے حق میں ڈالا جاتا ہے یعنی عملہ دیکھتا ہے کہ ووٹر کی اصل میں  intention  نیت کیا ہے اور وہ کس کو ووٹ ڈالنا چاہتا ہے تب ریٹرنگ آفیسر اپنی صوابدید استعمال کرتا ہے  اور ووٹ جس کو ووٹر کی نیت ہوتی ہے کو ووٹ ڈال دیا جاتا ہے جب یہ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے اور ریٹرنگ آفیسر کا فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا ، ہمارے ہاں تو پورے پورے حلقہ کا نتیجہ بدل دیا جاتا ہے یا عملہ پہلے ہی خریدا جا چکا ہوتا ہے اور وہ مخالف امیدوار کو ووٹ ڈالنے ہی نہیں دیتے ( ہمارے آزاد کشمیر کے انتخابات میں ہر جگہ پر دھاندلی کا زور ہوتا ہے ) یہاں پر پارلیمنٹ کے انتخابات میں اگر ایک سو ووٹ مسترد ہوں تو جو ایک بڑا اماؤنٹ ہوتا ہے اس پر افسوس کاآظہار ہی نہیں کیا جاتا بلکہDemocratic system کا Failure تصور کیا جاتا ہے  ، زیادہ سے چار چھ ووٹ مسترد ہوتے ہیں ، مسترد ووٹ وہ ہوتا ہے جس پر ایک سے زیادہ امیدواروں کے سامنے مہر یا نشان لگایا جائے  ، حالیہ انتخابات میں ایک حلقہ میں سولہ ہزار  ووٹوں کا مسترد کیا جانا یا ہونا لمحہ فکریہ ہے اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے ہم جمہوریت کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں ہم نے قوم کو ووٹ ڈالنے اور اسکی اہمیت کا اندازہ نہیں ہونے دیا اور قوم کو بیچ منجدھار میں لاکر کھڑا کردیا اور انتخابات کو ایک بڑا مسلہ بنا دیا اور پوری قوم کو اس مخمصہ میں سے ڈال دیا یا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے کہ کون حکومت بنائے گا یا ہماری حکومت کیسی ہوگی ہماری ساری سیاسی قیادت اپنے مفادات کا کھیل رہی ہے ، ووٹو کی گنتی اور ووٹ پر مہر لگوانا ریٹٹرنگ آفیسر کے ساتھ پریزائڈنگ آفیسر کی ذمہ داری ہوتی کہ وہ ووٹر کو پرچی دیتے وقت بتائے کہ آپ نے ایک جگہ ہی مہر لگانی ہے مہر انکے سامنے نہیں لگائی جاسکتی بلکہ پردے کے پیچھے لگائی جاتی ہے ، قارئین کرام  کہتے ہیں کبھی برائی سے اچھائی بھی نکلتی ہے چند سیاستدانوں نے جعلی کامیابی سے کامیاب ہونے پر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی یا جعلی طور پر کامیابی حاصل کرنے پر ناکا می پر ترجیع دی اور اپنا اصول پرست ہونا ثابت کیا تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھے گی ، جمہوریت میں زیادہ ووٹ لینے والا جیت کا حقدار ہوتا ہے  ، ہمارے ہاں چالیس ہزار والے کے دو زیرو چار سو والے کے سامنے لگا کر چار سو والے کی جیت کا اعلان کر دیا جاتا ہے جو جمہوریت کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے جو لوگ یہ کرتے ہیں وہ قومی مجرم ہیں ، قارئین کرام ایک دیسی مثال ہے کہ زمین پر گری ہوئی بیریوں  کا کچھ نہیں بگڑتا ارباب اختیار کسی جماعت کو سپورٹ نہ کریں جو پارٹی قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلیوں میں اپنی اکثریت ثابت کرے اسے حکومت بنانے دی جائے ،اس میں ہی ہماری بھلائی اور ملک کا مفاد ہے ، ان انتخابات کو دنیا بھر کے چینلز سے دکھایا جارہا ہے جس طرح کے معاملات ابھر کر سامنے آرہے ہیں وہ ہمارے شایان نہیں ہمیں حوصلہ اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور معاملات کو اس نہج پر نہیں پہچانا چاہیے  جہانسے واپسی ناممکن ہو-

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept